Youth Awareness











{November 7, 2012}   الطاف بھائی کے پیٹ کا درد

Is it ?

الطاف بھائی کے پیٹ کا درد
جی ہاں ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کے پیٹ میں آج کل پھر سے پاکستان کی محبت کا درد اٹھ رہا ہے، اور وہ
پاکستان کو اس کے بانی جناح صاحب کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔
شاید الطاف حسین کا ابھی جی نہیں بھرا ہے ،تاریخ تو شاید انہوں نے بھی پڑھی ہوگی، کچھ نہیں تو اپنے بزرگوں سے حادثاتِ ہجرت کے دلسوز واقعات تو سنے ہی ہوں گے، کیا وہ تقسیم ہند کے وقت اپنے آباﺅ اجداد کی جا بجا بکھری ہ
وئی لاشوں کے مناظر بھول گئے ہیں، اور شاید وہ ہجرت کی تکلیفوں کو بھی بھول گئے ہیں جو کہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تھی،ہمارے خیال میں اب تک تو ان کو سبق سیکھ لینا چاہیے تھا،لیکن وہ بضد ہیں اورایک بار پھر اپنی قوم کو ایک کڑے امتحان میں ڈالنا چاہتے ہیں۔
بھئی اگر اس ملک کا ایک طبقہ ہم کو پتھروں کے زمانے میں لے جانا چاہتا ہے، اپنی طرز کا اسلامی نظام حکومت دینا چاہتا ہے، عورتوں کی تعلیم اور ملازمتوں پر پابندی لگانا چاہتا ہے، بچیوں کے سروں میں ذرا ذرا سی بات پر گولیاں اتارنا چاہتا ہے تو الطاف بھائی کو کیا تکلیف ہے، طالبان سے ان کی کیا ایسی پرخاش ہے کہ وہ ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتے،صدیوں کے بھٹکے ہوئے یہ جاہل آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے۔
آج کے پاکستان میں کسی بھی عام یا خاص شخص سے یہ کون سا سوال ہے کہ آپکو کس کا پاکستان چاہیے قائد اعظم کا یا طالبان کا، تو بھائی ان لوگوں سے کیا توقع رکھتے ہو جو کہ ایک صبح چودہ اگست کو اچانک پاکستانی بن گئے ، یا پھر مودودی کے چیلوں سے کیا امیدرکھی جائے جو کہ پہلے دن سے ہی اس ملک کے مخالف رہے تھے اور ہمارے قائد اعظم کو کافر اعظم کہتے تھے، یا پھر ان لوگوں سے یہ سوال جو راجہ داہر کو اپنا رہبر مانتے تھے،سرحدی گاندھیوں کے اس ملک میں ایسا ریفرنڈم کسی کے پیٹ کادرد ہی ہو سکتا ہے،دماغ کا خلل یا پھر کوئی ایسا جنون جو ہمیں پاکستان کے کسی اور سیاسی رہنما میں تو دکھائی نہیں دیا۔
ہم یہاں متحدہ قومی موومنٹ کے حامیوں سے یہ با ت ضرور کہیں گے کہ اس ریفرینڈم سے وہ کوئی زیادہ اچھی توقعات نہ رکھیں، نتیجہ شاید ان کے حق میں آنے کی امید بہت کم ہے، اب یہ ایک مختلف پاکستان ہے، جہاں شریف بدمعاش ہے، جہاں عدل سیاسی ہے، میڈیا کمرشل ہے بس ایک عسکری ادارہ ہی ایسا ہے جو کہ ہر مشکل وقت میں ملک کو بھنور سے نکال دیتا ہے اور اس کے باوجود گالیاں سننے کو ملتی ہیں۔ یہ وہ ملک ہے کہ زر مبادلہ بھیجنے والے ریڑھ کی ہڈی اورسیز پاکستانی سوتیلی اولاد کے طرح ہیں جنہیں ووٹ دینے کا اختیار تو دور کی بات ان پر تو اپنے ہی ملک میں رہنمائی سے محروم کرنے کی بات کی جاتی ہے۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو جغرافیائی طور پر پاکستان اب شہری سندھ تک ہی اصل پاکستان رہ گیا ہے، ریفرینڈم تو اب یہ ہونا چاہیے کہ آپ کو پاکستان چاہیے یا پھر ہم جتنا بچا سکتے ہیں اتنا بچا لیں اور اپنے سینے سےلگا کر رکھ لیں ، جس پاکستان کو ہمارے آباو اجداد نے لہو دے کر سینچا تھا ہم اپنا لہو دے کر اس کو پروان چڑھا لیں گے۔ اگر ایسا ریفرینڈم کیا جائے تو ہمیں امید ہے کہ مسئلے کا حل جلد نکل آئے گا، ورنہ الطاف بھائی اور ان کی قوم بھیک میں ملی ہوئی حب الوطنی کو خیرات کی طرح سمیٹتے رہیں گے ۔ ادھرآنے والا مورخ شاید کچھ اور لکھنے کی تیاری کر رہا ہے، اسے پتہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ٹھوکر میں زمانہ ہے، اور اس ملک کے نام نہاد سیاسی رہنما یہ نہیں جانتے کہ حب الوطن ہی اس ملک کے لئے ریفرینڈم کرارہے ہیں انہیں آپ سے محب الوطن ہونے کا سرٹیفیکٹ نہیں چاہیے۔
بقول شاعر ۔ ۔ ۔
تم اک چراغ کی خیرات دے رہے ہو مجھے
میں آفتاب سے دامن چھڑا کر آیا ہوں


Leave a comment

et cetera